دھواں دھواں ہیں نگاہوں کی بستیاں کیا کیا
چمک رہی ہیں خیالوں کی بجلیاں کیا کیا
بھنور کی آنکھ سے تکتے ہی رہ گئے طوفاں
پہنچ گئی ہیں کناروں پہ کشتیاں کیا کیا
ملے گی میری بھی کشت نظر کو سیرابی
ہر ایک سمت اچھلتی ہیں ندیاں کیا کیا
مری نگاہ کے دامن کو کھینچ لیتی ہیں
ترے خیال کی گل پوش وادیاں کیا کیا
شراب خانے کے دیوار و در دمک اٹھے
چھلک پڑیں مرے ساغر سے بجلیاں کیا کیا
سخن کے شور میں سنتا نہیں کوئی لیکن
دلوں میں گونج رہی ہیں کہانیاں کیا کیا
ندیمؔ شعبدۂ زندگی سے آخر کار
لہک رہی ہیں نگاہوں میں کھیتیاں کیا کیا

غزل
دھواں دھواں ہیں نگاہوں کی بستیاں کیا کیا
صلاح الدین ندیم