EN हिंदी
دھواں دھواں ہے فضا روشنی بہت کم ہے | شیح شیری
dhuan dhuan hai faza raushni bahut kam hai

غزل

دھواں دھواں ہے فضا روشنی بہت کم ہے

شکیل اعظمی

;

دھواں دھواں ہے فضا روشنی بہت کم ہے
سبھی سے پیار کرو زندگی بہت کم ہے

مقام جس کا فرشتوں سے بھی زیادہ تھا
ہماری ذات میں وہ آدمی بہت کم ہے

ہمارے گاؤں میں پتھر بھی رویا کرتے تھے
یہاں تو پھول میں بھی تازگی بہت کم ہے

جہاں ہے پیاس وہاں سب گلاس خالی ہیں
جہاں ندی ہے وہاں تشنگی بہت کم ہے

یہ موسموں کا نگر ہے یہاں کے لوگوں میں
ہوس زیادہ ہے اور عاشقی بہت کم ہے

تم آسمان پہ جانا تو چاند سے کہنا
جہاں پہ ہم ہیں وہاں چاندنی بہت کم ہے

برت رہا ہوں میں لفظوں کو اختصار کے ساتھ
زیادہ لکھنا ہے اور ڈائری بہت کم ہے