ڈھولکی دھم دھمی خنجری بھی بجانی جانی
تان کی جان مگر تم نے نہ جانی جانی
ہل گئے مل گئے انجانوں سے جوں جان پہچان
پر مری قدر ذری تم نہ پہچانی جانی
لگ چلے جو کہ رقیبوں نے لگایا تم کو
سانچی اور جھوٹی کوئی بات نہ چھانی جانی
جو کہا میں نے نہ تم نے کبھی دھر کان سنا
بات کیا ایسی مری تم نے دوانی جانی
مان نے تیری تو مارا ہمیں اب تو من جا
یہ ہٹیلا نہیں دیکھا کوئی مانی جانی
جاں کنی میں تو ذرا آ کے دکھاؤ دیدار
جان مر جاؤں گا کہتا ہی میں جانی جانی
رات دن یہ جو سلوک ہم سے کیا کرتے ہو
دل میں کیا جانیے کیا تم نے ہے ٹھانی جانی
صرف کی اپنی ترے عشق میں جانی سب عمر
اظفریؔ نے نہ بڑھاپا نہ جوانی جانی
غزل
ڈھولکی دھم دھمی خنجری بھی بجانی جانی
مرزا اظفری