دھوکا بھی نہیں تھا کوئی عنواں بھی نہیں تھا
ایسے میں جئے جانے کا امکاں بھی نہیں تھا
کیا جانئے کیا سوچ کے واں ڈوب گئے ہم
دریا میں تو اس دم کہیں طوفاں بھی نہیں تھا
آباد سرابوں سے سدا اس کا جہاں تھا
صحرا مرے دل سا کبھی ویراں بھی نہیں تھا
اک بات تھی یہ ہم اسے سوچیں کہ نہ سوچیں
ہاں اس کے سوا مسئلۂ جاں بھی نہیں تھا
یہ جان کے وہ رقص کیا اہل جنوں نے
جو ہاتھ لگا ان کے گریباں بھی نہیں تھا
ہر سانس نکلتی ہے تری یاد میں ڈوبی
اور بھول کے جینا تجھے آساں بھی نہیں تھا
کچھ پھول شگفتہ مرے ہونٹوں پہ سجے ہیں
آئینہ مجھے دیکھ کے حیراں بھی نہیں تھا
پھولوں کے لہو سے یہ چمن زار تھا روشن
گلشن میں کہیں خار مغیلاں بھی نہیں تھا
ہے بات بڑی جان مری کام تو آئی
وہ قتل مجھے کر کے پشیماں بھی نہیں تھا
ان مست نگاہوں کے اشاروں کو سمجھنا
مشکل بھی نہیں تھا کوئی آساں بھی نہیں تھا
دنیا یہ بھلا کیوں مرے قدموں میں پڑی ہے
میں اس کے لئے اتنا پریشاں بھی نہیں تھا
پلکوں کو سکھا دیتے رہ و رسم بھی خالدؔ
تھی ہجر کی شب اور چراغاں بھی نہیں تھا

غزل
دھوکا بھی نہیں تھا کوئی عنواں بھی نہیں تھا
خالد فتح پوری