دھیمی بارش کی لے میں احوال سناتے رہنا
اس کا ایک جھروکے میں پھر شال سکھاتے رہنا
جانے کس کی یاد آتی ہے ساحل ساحل جا کر
ریت پہ زخمی پوروں سے اشکال بناتے رہنا
ربط اک شے کلیوں سے کومل اور ہوائیں مورکھ
ٹوٹے اس کے تار تو کیا سر تال ملاتے رہنا
کیا جانے کب لمحوں کی مفرور سماعت لوٹے
اچھی اچھی آوازوں کے جال بچھاتے رہنا
اپنی تو میراث یہی ہے رات گواہی دے گی
دن کے عارض شام سویرے لال بناتے رہنا
اس نے تو آتے رہنا ہے صحن میں رم کرنے کو
روز غزال درد کے ماتھے خال لگاتے رہنا
غزل
دھیمی بارش کی لے میں احوال سناتے رہنا
سجاد بابر