دھرتی پہ زندگی کے امٹ اعتماد کو
جی خوش ہوا ہے دیکھ کے اپنے کماد کو
خود مٹ گیا مٹاتا ہوا سطوت حسین
تاریخ مات دے گئی ابن زیاد کو
تا عمر مرنا جینا رہے ساجنا کے سنگ
دل لوبھتا ہے ایسے ہی آشیرواد کو
کہنہ کہانیاں سنیں لیکن بنیں چنیں
اشعار کے سواد میں تازہ مواد کو
سونپے ہیں میں نے جنگلی چڑیوں کے چہچہے
اس مدھ مکھی کی یاد کو من کی مراد کو
قرضہ اتارا اے سی خریدا منگایا ڈش
اس سال کھیتیوں میں لگایا تھا کھاد کو
نعرہ علی کا ورد کرے سنکھ کی صدا
چمٹوں کے ساتھ ڈھول بجیں پھونکیں ناد کو
آخر ہمیں بھی پڑ گیا ہجرت سے واسطہ
رکھتا ہے کون شہر میں صحرا نژاد کو
بن باس کی اساس بھرے روح کے بھنور
مولا لگا سہاگ مری سوچ سادھ کو
غزل
دھرتی پہ زندگی کے امٹ اعتماد کو
ناصر شہزاد