EN हिंदी
ڈھنگ جینے کا نہ مرنے کی ادا مانگی تھی | شیح شیری
Dhang jine ka na marne ki ada mangi thi

غزل

ڈھنگ جینے کا نہ مرنے کی ادا مانگی تھی

دل ایوبی

;

ڈھنگ جینے کا نہ مرنے کی ادا مانگی تھی
ہم نے تو جرم محبت کی سزا مانگی تھی

کیا خبر تھی کہ اندھیروں کو بھی شرما دیں گے
جن اجالوں کے لئے ہم نے دعا مانگی تھی

عشق میں راز بقا کیا ہے خبر تھی ہم کو
ہم نے کچھ سوچ سمجھ کر ہی فنا مانگی تھی

مانگنے والوں میں شامل تو تھے ہم بھی لیکن
ہم نے اس در پہ فقط طرز نوا مانگی تھی

بن گئی حسن طلب بھی تو معمہ اے دلؔ
درد مانگا تھا وہ سمجھے کہ دوا مانگی تھی