ڈھنگ جینے کا نہ مرنے کی ادا مانگی تھی
ہم نے تو جرم محبت کی سزا مانگی تھی
کیا خبر تھی کہ اندھیروں کو بھی شرما دیں گے
جن اجالوں کے لئے ہم نے دعا مانگی تھی
عشق میں راز بقا کیا ہے خبر تھی ہم کو
ہم نے کچھ سوچ سمجھ کر ہی فنا مانگی تھی
مانگنے والوں میں شامل تو تھے ہم بھی لیکن
ہم نے اس در پہ فقط طرز نوا مانگی تھی
بن گئی حسن طلب بھی تو معمہ اے دلؔ
درد مانگا تھا وہ سمجھے کہ دوا مانگی تھی
غزل
ڈھنگ جینے کا نہ مرنے کی ادا مانگی تھی
دل ایوبی