دھنک سے پھول سے برگ حنا سے کچھ نہیں ہوتا
بدن صحرا ہوئے آب و ہوا سے کچھ نہیں ہوتا
بہت کچھ دوستو بسمل کے چپ رہنے سے ہوتا ہے
فقط اس خنجر دست جفا سے کچھ نہیں ہوتا
اگر وسعت نہ دیجے وحشت جاں کے علاقے کو
تو پھر آزادیٔ زنجیر پا سے کچھ نہیں ہوتا
کوئی کونپل نہیں اس ریت کی تہہ میں تو کیا نکلے
یہاں اے سادہ دل کالی گھٹا سے کچھ نہیں ہوتا
ازل سے کچھ خرابی ہے کمانوں کی سماعت میں
پرندو شوخیٔ صوت و صدا سے کچھ نہیں ہوتا
چلو اب آسماں سے اور کوئی رابطہ سوچیں
بہت دن ہو گئے حرف دعا سے کچھ نہیں ہوتا
غزل
دھنک سے پھول سے برگ حنا سے کچھ نہیں ہوتا
عرفانؔ صدیقی