ڈھلوان پر گلاب ترائی میں گھاس ہے
اس خطۂ چمن کو مرے خوں کی پیاس ہے
موسم کی آندھیوں میں بکھر جائے ٹوٹ کر
اس کارگاہ شیشہ گری کو یہ راس ہے
میں جانتا ہوں شرم سے بوجھل نگاہ کو
یہ ننگی خواہشوں کا پرانا لباس ہے
جو بجھ چکا اس ایک ستارے کی روشنی
اب بھی سواد شہر دل و جاں کے پاس ہے
ہے یاد آج بھی انہی ہونٹوں کا ذائقہ
ہاتھوں میں اب بھی اس کے پسینے کی باس ہے
دیوار پر لگی ہوئی تصویر دیکھنا
ماضی کی داستان کا یہ اقتباس ہے
ٹھٹھری ہوئی ہے روح چمکتا ہے آفتاب
دونوں کے درمیان فصیل حواس ہے
قصر سخن میں کھولیے لفظوں کی کھڑکیاں
اس دور میں بس اک یہی راہ نکاس ہے
ارشادؔ ساری کاوشیں بے کار محض ہیں
سرما کی رات سے تجھے حدت کی آس ہے
غزل
ڈھلوان پر گلاب ترائی میں گھاس ہے
ارشاد حسین کاظمی