ڈھل چکے سورج کے احساسات کی
ہے بہت الجھی کہانی رات کی
سب بکھر جائیں گے موتی فرش پر
کھول دوں گر پوٹلی جذبات کی
رکھ دی ہے عزت جنھوں نے تاک پہ
بات کرتے ہیں وہی اوقات کی
اپنی محنت پر بھروسہ ہے ہمیں
ہے نہیں خواہش کسی خیرات کی
ہو گیا عادی سچنؔ دل درد کا
آنکھ عادی ہو گئی برسات کی

غزل
ڈھل چکے سورج کے احساسات کی
سچن شالنی