دھڑکنیں دل کی گنے خوں میں روانی مانگے
زندگی عشق کی اے دوست جوانی مانگے
پیش کر داغ اگر دل پہ کوئی کھایا ہو
عشق ہر عاشق صادق سے نشانی مانگے
زلف شب گوں ترے شانے پہ کھلی ناگن ہے
ڈس لے یہ جس کو نہ پھر اٹھ کے وہ پانی مانگے
آدمی عہد جوانی میں رہا منکر غم
اب غم دل کی خبر ہے تو جوانی مانگے
حسن ہر گام پہ قائم کرے اک تازہ حجاب
عشق پردے کی یہ دیوار گرانی مانگے
دن کو سوتی ہے محبت کی کشش آنکھوں میں
رات کو چاند ستاروں کی کہانی مانگے
مے کدہ میں مرے ساقی کا نیا حکم یہ ہے
شام کو پیاس لگے صبح کو پانی مانگے
دلبری پیشہ ہے یہ چور بھی اپنے دل کا
آنکھ ہر ایک حقیقت سے چرانی مانگے
کیا نئے دوست نوازو کا بھروسا ہے نشورؔ
دوستی یہ ہے کہ وہ رسم پرانی مانگے
غزل
دھڑکنیں دل کی گنے خوں میں روانی مانگے
نشور واحدی