دھڑکا تھا دل کہ پیار کا موسم گزر گیا
ہم ڈوبنے چلے تھے کہ دریا اتر گیا
خوابوں کی وہ متاع گراں کس نے چھین لی
کیا جانیے وہ نیند کا عالم کدھر گیا
تم سے بھی جب نشاط کا اک پل نہ مل سکا
میں کاسۂ سوال لئے در بدر گیا
بھولے سے کل جو آئنہ دیکھا تو ذہن میں
اک منہدم مکان کا نقشہ اتر گیا
تیز آندھیوں میں پاؤں زمیں پر نہ ٹک سکے
آخر کو میں غبار کی صورت بکھر گیا
گہرا سکوت رات کی تنہائیاں کھنڈر
ایسے میں اپنے آپ کو دیکھا تو ڈر گیا
کہتا کسی سے کیا کہ کہاں گھومتا پھرا
سب لوگ سو گئے تو میں چپکے سے گھر گیا
غزل
دھڑکا تھا دل کہ پیار کا موسم گزر گیا
نشتر خانقاہی