EN हिंदी
دھڑکا تھا دل کہ پیار کا موسم گزر گیا | شیح شیری
dhaDka tha dil ki pyar ka mausam guzar gaya

غزل

دھڑکا تھا دل کہ پیار کا موسم گزر گیا

نشتر خانقاہی

;

دھڑکا تھا دل کہ پیار کا موسم گزر گیا
ہم ڈوبنے چلے تھے کہ دریا اتر گیا

خوابوں کی وہ متاع گراں کس نے چھین لی
کیا جانیے وہ نیند کا عالم کدھر گیا

تم سے بھی جب نشاط کا اک پل نہ مل سکا
میں کاسۂ سوال لئے در بدر گیا

بھولے سے کل جو آئنہ دیکھا تو ذہن میں
اک منہدم مکان کا نقشہ اتر گیا

تیز آندھیوں میں پاؤں زمیں پر نہ ٹک سکے
آخر کو میں غبار کی صورت بکھر گیا

گہرا سکوت رات کی تنہائیاں کھنڈر
ایسے میں اپنے آپ کو دیکھا تو ڈر گیا

کہتا کسی سے کیا کہ کہاں گھومتا پھرا
سب لوگ سو گئے تو میں چپکے سے گھر گیا