دھڑکتا جاتا ہے دل مسکرانے والوں کا
اٹھا نہیں ہے ابھی اعتبار نالوں کا
یہ مختصر سی ہے روداد صبح مے خانہ
زمیں پہ ڈھیر تھا ٹوٹے ہوئے پیالوں کا
یہ خوف ہے کہ صبا لڑکھڑا کے گر نہ پڑے
پیام لے کے چلی ہے شکستہ حالوں کا
نہ آئیں اہل خرد وادئ جنوں کی طرف
یہاں گزر نہیں دامن بچانے والوں کا
لپٹ لپٹ کے گلے مل رہے تھے خنجر سے
بڑے غضب کا کلیجہ تھا مرنے والوں کا
غزل
دھڑکتا جاتا ہے دل مسکرانے والوں کا
کلیم عاجز