EN हिंदी
دھڑکتا جاتا ہے دل مسکرانے والوں کا | شیح شیری
dhaDakta jata hai dil muskurane walon ka

غزل

دھڑکتا جاتا ہے دل مسکرانے والوں کا

کلیم عاجز

;

دھڑکتا جاتا ہے دل مسکرانے والوں کا
اٹھا نہیں ہے ابھی اعتبار نالوں کا

یہ مختصر سی ہے روداد صبح مے خانہ
زمیں پہ ڈھیر تھا ٹوٹے ہوئے پیالوں کا

یہ خوف ہے کہ صبا لڑکھڑا کے گر نہ پڑے
پیام لے کے چلی ہے شکستہ حالوں کا

نہ آئیں اہل خرد وادئ جنوں کی طرف
یہاں گزر نہیں دامن بچانے والوں کا

لپٹ لپٹ کے گلے مل رہے تھے خنجر سے
بڑے غضب کا کلیجہ تھا مرنے والوں کا