EN हिंदी
ڈھاتے ہیں اب وہ ظلم و ستم کم بہت ہی کم | شیح شیری
Dhate hain ab wo zulm-o-sitam kam bahut hi kam

غزل

ڈھاتے ہیں اب وہ ظلم و ستم کم بہت ہی کم

قیس جالندھری

;

ڈھاتے ہیں اب وہ ظلم و ستم کم بہت ہی کم
یعنی ہے ان کا لطف و کرم کم بہت ہی کم

جس راہ میں ہیں رنج و الم کم بہت ہی کم
اٹھتے ہیں اس پہ میرے قدم کم بہت ہی کم

اس سے مراد یہ تو نہیں دل ہے مطمئن
مانا ہے میری آنکھ میں نم کم بہت ہی کم

اے دوست اور ہے ترا دل اور ہی زباں
اب تجھ کو منہ لگائیں گے ہم کم بہت ہی کم

فرد گناہ دیکھ کے یا رب سزا نہ دے
نیت مری ہے اس میں رقم کم بہت ہی کم

حق گو کی بات بات کو اظہار حق سمجھ
کھائے اگر خدا کی قسم کم بہت ہی کم

رندوں کے دم سے شیخ ہوا چاند عید کا
آتا ہے وعظ کرنے کو کم کم بہت ہی کم

اب فاقہ مستیوں سے یہ عادت سی ہو گئی
کھاتا ہوں رزق کی بھی قسم کم بہت ہی کم

ساقی کی چشم مست کی ہے بات ہی کچھ اور
ہے اس کے آگے بادۂ جم کم بہت ہی کم

اے قیس اگر زمین غزل ہو نہ سنگلاخ
چلتا ہے اس میں پائے قلم کم بہت ہی کم