EN हिंदी
دیتا تھا جو سایا وہ شجر کاٹ رہا ہے | شیح شیری
deta tha jo saya wo shajar kaT raha hai

غزل

دیتا تھا جو سایا وہ شجر کاٹ رہا ہے

بلقیس ظفیر الحسن

;

دیتا تھا جو سایا وہ شجر کاٹ رہا ہے
خود اپنے تحفظ کی وہ جڑ کاٹ رہا ہے

بے سمت اڑانوں سے پشیماں پرندہ
اب اپنی ہی منقار سے پر کاٹ رہا ہے

محبوس ہوں غاروں میں مگر آذر تخیئل
چٹانوں میں اشکال ہنر کاٹ رہا ہے

اک ضرب مسلسل ہے کہ رکتی ہی نہیں ہے
ہر تار نفس درد جگر کاٹ رہا ہے

ہے کون کمیں گاہ میں یہ کیسے بتاؤں
ہر تیر مگر میرے ہی پر کاٹ رہا ہے

امید اجالے کا لیے تیشہ ہر اک دل
ہر رات بہ انداز سحر کاٹ رہا ہے

کرتا ہے فزوں وحشت دل دشت کا موسم
بلقیسؔ مگر کیا کروں گھر کاٹ رہا ہے