دیتا تھا جو سایا وہ شجر کاٹ رہا ہے
خود اپنے تحفظ کی وہ جڑ کاٹ رہا ہے
بے سمت اڑانوں سے پشیماں پرندہ
اب اپنی ہی منقار سے پر کاٹ رہا ہے
محبوس ہوں غاروں میں مگر آذر تخیئل
چٹانوں میں اشکال ہنر کاٹ رہا ہے
اک ضرب مسلسل ہے کہ رکتی ہی نہیں ہے
ہر تار نفس درد جگر کاٹ رہا ہے
ہے کون کمیں گاہ میں یہ کیسے بتاؤں
ہر تیر مگر میرے ہی پر کاٹ رہا ہے
امید اجالے کا لیے تیشہ ہر اک دل
ہر رات بہ انداز سحر کاٹ رہا ہے
کرتا ہے فزوں وحشت دل دشت کا موسم
بلقیسؔ مگر کیا کروں گھر کاٹ رہا ہے
غزل
دیتا تھا جو سایا وہ شجر کاٹ رہا ہے
بلقیس ظفیر الحسن