دیر تک میں تجھے دیکھتا بھی رہا
ساتھ اک سوچ کا سلسلہ بھی رہا
میں تو جلتا رہا پر مری آگ میں
ایک شعلہ ترے نام کا بھی رہا
شہر میں سب سے چھوٹا تھا جو آدمی
اپنی تنہائیوں میں خدا بھی رہا
زندگی یاد رکھنا کہ دو چار دن
میں ترے واسطے مسئلہ بھی رہا
رنگ ہی رنگ تھا شہر جاں کا سفر
راہ میں جسم کا حادثہ بھی رہا
تم سے جب گفتگو تھی تو اک ہم سخن
کوئی جیسے تمہارے سوا بھی رہا
وہ مرا ہم نشیں ہم نوا ہم نفس
بھونکتا بھی رہا کاٹتا بھی رہا

غزل
دیر تک میں تجھے دیکھتا بھی رہا
رئیس فروغ