دیر کے ساتھ حرم آئے شوالے آئے
آج چھن چھن کے اندھیروں سے اجالے آئے
برہمن آئے ہیں زنار لیے ہاتھوں میں
حضرت شیخ بھی دستار سنبھالے آئے
ہم نے بے ساختہ کانٹوں کے دہن چوم لیے
جب کبھی دشت میں پھولوں کے حوالے آئے
ہجر کے درد بھی آنسو بھی ہے تنہائی بھی
ترے جاتے ہی مرے چاہنے والے آئے
اس کے دربار سے ہم خاک نشینوں کے لئے
پیرہن سونے کے چاندی کے دو شالے آئے
تاکہ زحمت نہ بنے اس کو اسیری اپنی
خود سے ہم پاؤں میں زنجیر کو ڈالے آئے
غزل
دیر کے ساتھ حرم آئے شوالے آئے
فہیم جوگاپوری