دینے والے یہ زندگی دی ہے
یا مرے ساتھ دل لگی کی ہے
ہم کو معلوم ہی نہ تھا یہ راز
موت کا نام زندگی بھی ہے
آشیانوں کی خیر ہو یا رب
صحن گلشن میں روشنی سی ہے
ہم نے برسوں جگر جلایا ہے
پھر کہیں دل میں روشنی کی ہے
آپ سے دوستی کا اک مفہوم
ساری دنیا سے دشمنی بھی ہے
لوگ مرتے ہیں زندگی کے لئے
ہم نے مر مر کے زندگی کی ہے
ہم کو مارا ہے عاشقی نے جلیسؔ
لوگ کہتے ہیں خود کشی کی ہے
غزل
دینے والے یہ زندگی دی ہے
برہما نند جلیس