دیکھوں وہ کرتی ہے اب کے علم آرائی کہ میں
ہارتا کون ہے اس جنگ میں تنہائی کہ میں
بھول بیٹھا ہوں کہ افلاک بھی کچھ ہوتے ہیں
اپنی وسعت میں ملی مجھ کو وہ گہرائی کہ میں
آج تک اپنی رہائی کی دعا کرتا ہوں
اب کے زنجیر ہواؤں نے وہ پہنائی کہ میں
خود کو پانے لگا تنہائی کی تاریکی میں
اس قدر شوخ ہوا رنگ شناسائی کہ میں
رنگ تعبیر اندھیروں سے اٹھا لیتا ہوں
کون خوابوں کو عطا کرتا ہے بینائی کہ میں
گوشۂ دشت میں یوں ہی تو نہیں بیٹھا ہوں
سفر آسان کرے گا کوئی سودائی کہ میں
اس کی ہر بات پہ ایمان نہیں رکھتا ہوں
کچھ تو تحریر پہ ہو حاشیہ آرائی کہ میں
رکھنے والا ہوں قدم قریۂ شہرت میں حسنؔ
حملہ آور نہ کہیں ہو سگ رسوائی کہ میں

غزل
دیکھوں وہ کرتی ہے اب کے علم آرائی کہ میں
حسن عزیز