دیکھتے دیکھتے ہی سال گزر جاتا ہے
پر ترا غم ہے کہ بڑھتا ہے ٹھہر جاتا ہے
تیرتی رہتی ہے آنکھوں میں تو ہر شب ایسے
جیسے دریا میں کوئی چاند اتر جاتا ہے
کون اس خواب کی تعبیر پہ کرتا ہے یقیں
خواب جو نیند سے لڑتا ہوا مر جاتا ہے
ہم نے آنکھوں کی زبانوں پہ لگائے ہیں قفل
ورنہ دل تیری ہی آوازوں سے بھر جاتا ہے
پھر سے دنیا کی طرف دھیان لگایا ہے مگر
خاک اتنے میں ترا دل سے اثر جاتا ہے

غزل
دیکھتے دیکھتے ہی سال گزر جاتا ہے
دھیریندر سنگھ فیاض