دیکھو کوئی خواب دن ڈھلے کا
دریا کے اس آخری سرے کا
ظاہر میں تھے پر تپاک لمحے
موسم تھا وہ رشتے ٹوٹنے کا
کاغذ پہ سلگتے کچھ ستارے
مکتوب سا کوئی شب ڈھلے کا
قربت کی چھٹی جو دھند دیکھا
روشن تھا چراغ فاصلے کا
ہر آنکھ میں ڈھونڈھتا ہوں خود کو
میں نور ہوں بجھتے رت جگے کا
ٹہنی سے گرا دو برگ لرزاں
امکان ہے تازہ سانحے کا
غزل
دیکھو کوئی خواب دن ڈھلے کا
مصور سبزواری