EN हिंदी
دیکھو فراق یار میں جاں کھو رہا ہے وہ | شیح شیری
dekho firaq-e-yar mein jaan kho raha hai wo

غزل

دیکھو فراق یار میں جاں کھو رہا ہے وہ

شہزاد رضا لمس

;

دیکھو فراق یار میں جاں کھو رہا ہے وہ
شہزادؔ کو سنبھالو بہت رو رہا ہے وہ

آئے نئے جو زخم تو یہ روح نے کہا
کچھ دیر بیٹھ جاؤ ابھی سو رہا ہے وہ

صحرا کی خاک حق میں مرے کہہ رہی ہے یہ
جو ہونا چاہتا تھا وہی ہو رہا ہے وہ

پہلے بھی خالی ہاتھ تھا ہے اب بھی خالی ہاتھ
اور کب سے بار سود و زیاں ڈھو رہا ہے وہ

اے آسماں تو شکر ادا اس کا کیجیو
بے دل زمیں کے سینے میں دل ہو رہا ہے وہ

دیکھو کہاں کسے ملے شہزادؔ دہر میں
ہم نے سنا ہے خود کو کہیں کھو رہا ہے وہ