دیکھو فراق یار میں جاں کھو رہا ہے وہ
شہزادؔ کو سنبھالو بہت رو رہا ہے وہ
آئے نئے جو زخم تو یہ روح نے کہا
کچھ دیر بیٹھ جاؤ ابھی سو رہا ہے وہ
صحرا کی خاک حق میں مرے کہہ رہی ہے یہ
جو ہونا چاہتا تھا وہی ہو رہا ہے وہ
پہلے بھی خالی ہاتھ تھا ہے اب بھی خالی ہاتھ
اور کب سے بار سود و زیاں ڈھو رہا ہے وہ
اے آسماں تو شکر ادا اس کا کیجیو
بے دل زمیں کے سینے میں دل ہو رہا ہے وہ
دیکھو کہاں کسے ملے شہزادؔ دہر میں
ہم نے سنا ہے خود کو کہیں کھو رہا ہے وہ
غزل
دیکھو فراق یار میں جاں کھو رہا ہے وہ
شہزاد رضا لمس