دیکھنے اس کو کوئی میرے سوا کیوں آئے
میرے ہم راہ یہ نقش کف پا کیوں آئے
کل تھی یہ فکر اسے حال سنائیں کیسے
آج یہ سوچتے ہیں اس کو سنا کیوں آئے
کم نہیں ہے یہ اذیت کہ ابھی زندہ ہوں
اب مرے سر پہ کوئی اور بلا کیوں آئے
میں بلندی پہ اگر جاؤں تو کیسے جاؤں
آسمانوں سے زمینوں پہ خدا کیوں آئے
عدل و انصاف تقاضائے مشیت ہی سہی
زندگی ہی میں مگر روز جزا کیوں آئے
دوڑتے خون کی اک لہر بہت کافی ہے
شفق شام کو اتنی بھی حیا کیوں آئے
قیدیوں کے لیے بہتر ہے کہ گھٹ کر مر جائیں
روشنی جب نہیں آتی تو ہوا کیوں آئے
لوگ خاموشی کا کرتے ہیں تقاضا یعنی
سانس لینے کی بھی شہزادؔ صدا کیوں آئے
غزل
دیکھنے اس کو کوئی میرے سوا کیوں آئے
شہزاد احمد