دیکھنے میں یہ کانچ کا گھر ہے
روشنی آدمی کے اندر ہے
کیسا اجڑا ہوا یہ منظر ہے
گھر کے ہوتے بھی کوئی بے گھر ہے
مثل یونس ہوں بطن ماہی میں
میرے چاروں طرف سمندر ہے
اس کے کیا کیا سلوک دیکھے ہیں
وقت ہی بخت کا سکندر ہے
دیکھنے میں ہے وہ ورق سادہ
پڑھنے بیٹھوں تو ایک دفتر ہے
روشنی ہو تو کوئی پہچانے
کون رہزن ہے کون رہبر ہے
سانس لینا بھی معجزہ ہے یہاں
زندگی آگ کا سمندر ہے
روز پڑھتا ہوں بھیڑ کے چہرے
سب کے چہرے پہ ایک منظر ہے
اس کی تصویر کس طرح کھینچوں
میرا محبوب میرے اندر ہے
اپنی روداد مجھ کو یاد نہیں
دل کو لیکن تمام ازبر ہے
غزل
دیکھنے میں یہ کانچ کا گھر ہے
وجد چغتائی