دیکھنے کے لیے اک شرط ہے منظر ہونا
دوسری شرط ہے پھر آنکھ کا پتھر ہونا
وہاں دیوار اٹھا دی مرے معماروں نے
گھر کے نقشے میں مقرر تھا جہاں در ہونا
مجھ کو دیکھا تو فلک زاد رفیقوں نے کہا
اس ستارے کا مقدر ہے زمیں پر ہونا
باغ میں یہ نئی سازش ہے کہ ثابت ہو جائے
برگ گل کا خس و خاشاک سے کم تر ہونا
میں بھی بن جاؤں گا پھر سحر ہوا سے کشتی
رات آ جائے تو پھر تم بھی سمندر ہونا
وہ مرا گرد کی مانند ہوا میں اڑنا
پھر اسی گرد سے پیدا مرا لشکر ہونا
در بہ در ٹھوکریں کھائیں تو یہ معلوم ہوا
گھر کسے کہتے ہیں کیا چیز ہے بے گھر ہونا
کیسا گرداب تھا وہ ترک تعلق تیرا
کام آیا نہ مرے میرا شناور ہونا
تم تو دشمن بھی نہیں ہو کہ ضروری ہے سلیمؔ
میرے دشمن کے لیے میرے برابر ہونا

غزل
دیکھنے کے لیے اک شرط ہے منظر ہونا
سلیم احمد