دیکھنا ہو گر اسے ہستی مٹا کر دیکھ لو
ہے نظر کے سامنے خود کو چھپا کر دیکھ لو
شیشۂ دل کو ہمارے اک نگہ سے دیکھ لو
پھر اسی انداز سے تیغ آزما کر دیکھ لو
گور مجنوں پہ جو لیلہ نے کہا کیا حال ہے
قبر سے آئی صدا پردہ اٹھا کر دیکھ لو
میں کوئی موسیٰ نہیں جو دیکھ کر آ جاوے غش
گر نہیں باور مجھے جلوہ دکھا کر دیکھ لو
لب شکایت کو کہیں ہل جاویں تو پھر ضبط کیا
ایک کیا سو بار بندے کو ستا کر دیکھ لو
کیا کہوں کیا حال ہے دل کا تمہارے ہجر میں
بس کے خود آنکھوں میں اور دل میں سما کر دیکھ لو
عمر بھر گلزار ہستی کی نہ ہوگی آرزو
بلبل دل کو مرے قیدی بنا کر دیکھ لو
جلوۂ حسن دو عالم ہے اسی دربار میں
سنگ در پر ان کے بس سر کو جھکا کر دیکھ لو
آشیانہ فقر کا ہر برگ ہر ٹہنی پہ ہے
جتنے دل چاہیں جلانے ہوں جلا کر دیکھ لو
میرے آئینے میں خود بینی کے ساماں ہی نہیں
عکس جاناں سے بھرا رہتا ہے آ کر دیکھ لو
غم نہیں بجلی گرے جل جائے دل ہو جائے خاک
ارض اک بسملؔ کی ہے کہ مسکرا کر دیکھ لو
غزل
دیکھنا ہو گر اسے ہستی مٹا کر دیکھ لو
ہر بھجن سنگھ سوڑھی بسمل