دیکھیے اس کو تو ہر بات گل تر کی طرح
بات کیجے تو وہی شخص ہے پتھر کی طرح
عقل حیراں ہے کن الفاظ میں تعریف کروں
حسن اور وہ بھی چھلکتے ہوئے ساغر کی طرح
برق گفتار سہی شعلہ وہ تلوار سہی
ہم مگر ظرف بھی رکھتے ہیں سمندر کی طرح
آزماؤ گے تو ہم جاں سے گزر جائیں گے
کاغذی شیر نہیں ہیں کسی افسر کی طرح
دل کو بہلاتے ہیں افسانۂ آزادی سے
ہم نے اک طوق پہن رکھا ہے زیور کی طرح
راج کرتے ہیں وہی لوگ دلوں پر خالدؔ
بخش دیتے ہیں جو دشمن کو سکندر کی طرح
غزل
دیکھیے اس کو تو ہر بات گل تر کی طرح
خالد یوسف