دیکھیے کتنے سخن فہم سخن ور آئے
میں نے اک پھول اٹھایا کئی پتھر آئے
کر چکے ترک تعلق تو اسے سوچنا کیا
دل سے نکلا ہے تو وہ یاد بھی کیوں کر آئے
پھر وہی رات ہو بادل ہوں ہوا چلتی ہو
پھر وہی چاند درختوں سے نکل کر آئے
راہ ہموار مقدر میں نہیں تھی شاید
پاؤں نکلا تھا ابھی گھر سے کہ پتھر آئے
ایک دو گام مسافت تھی تری گلیوں کی
ساری دنیا کی تھکن لاد کے ہم گھر آئے
جنگ جاری ہے ابھی جاگتے رہئے شب بھر
جانے کس اوٹ سے چھپ کر کوئی لشکر آئے
کیا کوئی غم کے گنوانے کا ہنر ہاتھ آیا
مسکراتے ہوئے جو رنج کے خوگر آئے
دیکھ کر جس کی جھلک جان میں جان آتی تھی
اب سر راہ اسے دیکھ کے چکر آئے
اس برس پھول زیادہ نہ سہی شاخوں پر
بارشیں کم تھیں مگر رنگ برابر آئے
اب تو اس نیند میں چلتے ہوئے اکتا گئے ہم
اب تو بہتر ہے کسی موڑ پہ ٹھوکر آئے
ایک دو پل تو فراموش بھی کر دیں اس کو
ہاں اگر شخص کوئی یاد برابر آئے
غم گساروں میں مرے چارہ گروں میں اکثر
میرے دشمن بھی کئی بھیس بدل کر آئے
لوگ کس خواب سے روتے ہوئے اٹھے جاناںؔ
جانے کس قریہ ماتم سے یہ باہر آئے
غزل
دیکھیے کتنے سخن فہم سخن ور آئے
جاناں ملک