دیکھیے کس کو راس آتے ہیں
اچھے دن سب کے پاس آتے ہیں
ایک بھی کام کا نہیں ہوتا
فون دن میں پچاس آتے ہیں
کل تو وعدہ بھرے گلاس کا تھا
آج خالی گلاس آتے ہیں
تم کو بدلاؤ چاہئے ٹھہرو
ہم بدل کر لباس آتے ہیں
پہلے بنتی ہے سیتا اپرادھی
بعد میں تلسی داس آتے ہیں
ساری دنیا سے مل ملا کر ہم
آخرش اپنے پاس آتے ہیں
شام ہوتی ہے تب کہیں جا کر
واپس اپنے حواس آتے ہیں
جانے کیا ہو گیا ہے ناظمؔ کو
ہر جگہ وہ اداس آتے ہیں
غزل
دیکھیے کس کو راس آتے ہیں
ناظم نقوی