دیکھیے چلتا ہے پیمانہ کدھر سے پہلے
بزم میں شور ہے ہر سمت ادھر سے پہلے
غم کی تاریک گھٹاؤں سے پریشان نہ ہو
تیرگی ہوتی ہے آثار سحر سے پہلے
آپ جس راہ گزر سے ہیں گزرنے والے
ہم گزر آئے ہیں اس راہ گزر سے پہلے
مجھ سے دیکھے نہیں جاتے ہیں کسی کے آنسو
پونچھ لو اشک ذرا دیدۂ تر سے پہلے
حسن والے تو بہت پھرتے ہیں ہر سو لیکن
تم سا کوئی نہیں گزرا ہے نظر سے پہلے
ایک منزل ہے مگر راہ کئی ہیں اظہرؔ
سوچنا یہ ہے کہ جاؤ گے کدھر سے پہلے
غزل
دیکھیے چلتا ہے پیمانہ کدھر سے پہلے
اظہر لکھنوی