دیکھیے بے بدنی کون کہے گا قاتل ہے
سایہ آسا جو پھرے اس کو پکڑنا مشکل ہے
رگ ہر لفظ سے رستے ہوئے خوں سے گھبرا کر
میں جو خاموش رہا سب نے کہا ''تو جاہل ہے''
تجربہ دل میں رہے تو کھلے آنسو بن بن کر
اور کاغذ پہ چھلک جائے تو شمع محفل ہے
جو بھری دنیا کی سنگین عجائب نگری میں
اپنا سر آپ نہ پھوڑے وہ جہنم واصل ہے
لب دریا کو ملانے کا طریقہ کیسا ہوگا
دونوں جھکتے ہیں مگر بیچ میں دریا حائل ہے

غزل
دیکھیے بے بدنی کون کہے گا قاتل ہے
شمس الرحمن فاروقی