EN हिंदी
دیکھے ہیں مناظر جو ادھر شام سے پہلے | شیح شیری
dekhe hain manazir jo idhar sham se pahle

غزل

دیکھے ہیں مناظر جو ادھر شام سے پہلے

مریم ناز

;

دیکھے ہیں مناظر جو ادھر شام سے پہلے
دن ڈھلتے بدلتی ہے نظر شام سے پہلے

اترے ہیں یہاں دشت میں جو قافلے اکثر
کتنے ہیں چلے پار خضر شام سے پہلے

تابندہ بہاروں کے نئے رنگ لیے تو
میری بھی کبھی چھت پہ اتر شام سے پہلے

اس درد و ستم کا نہیں غم مجھ کو صنم تو
ہے آس ہو یہ ختم سفر شام سے پہلے

افلاس سے بڑھ کر نہیں ہوتا کوئی بھی دکھ
اس غم میں گرے ٹوٹ کہ در شام سے پہلے

جو چھوڑ کے جاتے ہیں یہاں بیچ بھنور میں
کھلتے ہیں نہیں ان پہ یہ در شام سے پہلے

بھٹکے ہوؤں کی راہیں تو اکثر ہیں ہوئی غم
کب ملتے انہیں اپنے ہی گھر شام سے پہلے

ٹوٹی ہوئی اب شاخوں کو یہ دیکھ کہ مریمؔ
ہاں پھوٹ کے روتے ہیں شجر شام سے پہلے