دیکھے اگر یہ گرمئ بازار آفتاب
سر بیچ کر ہو تیرا خریدار آفتاب
وہ حسن خود فروش اگر بے نقاب ہو
مہتاب مشتری ہو خریدار آفتاب
پوشیدہ گیسوؤں میں ہوا روئے پر ضیا
ہے آج میہمان شب تار آفتاب
اس کی تجلیوں سے کرے کون ہم سری
ہو جس کے نقش پا سے نمودار آفتاب
احباب کو حسنؔ وہ چمکتی غزل سنا
ہر لفظ سے ہو جس کے نمودار آفتاب
غزل
دیکھے اگر یہ گرمئ بازار آفتاب
حسن بریلوی