دیکھا تھا کس نظر سے تم نے ہنسی ہنسی میں
اک درد مستقل ہے اب میری زندگی میں
کعبہ بھی بت کدہ بھی ہے راہ بندگی میں
یہ منزلیں ہیں کیسی دشوار عاشقی میں
اے دوست یاد ان کی اب تک رلا رہی ہے
دو دن جو مل گئے تھے ہنسنے کو زندگی میں
اک بات پر ہماری الجھن میں پڑ گئے تم
دنیا نہ جانے کیا کیا کرتی ہے دوستی میں
جب ہوش میں رہا میں چھپتے رہے وہ مجھ سے
پردے ہٹا دیے سب دیکھا جو بے خودی میں
اے میری شام فرقت یوں دل نہیں بہلتا
کچھ اور روشنی کر تاروں کی روشنی میں
منزل پہ مجھ کو لا کر دامن جھٹک رہے ہو
یاد آئے گا مجھے یہ احسان زندگی میں
دور خزاں سے اب تو بہلا رہا ہوں دل کو
کانٹوں میں پھنس گیا ہوں پھولوں کی دوستی میں
تو ان کے سامنے ہو وہ تیرے سامنے ہوں
ایسا بھی ایک سجدہ عارفؔ ہو بے خودی میں

غزل
دیکھا تھا کس نظر سے تم نے ہنسی ہنسی میں
محمد عثمان عارف