دیکھا پلٹ کے جب بھی تو پھیلا غبار تھا
کچھ آنسوؤں کی دھند تھی اجڑا دیار تھا
یادوں کے آئنہ میں ہیں اب بھی بسی ہوئی
آنکھیں کہ جن میں منجمد اک انتظار تھا
رشتوں کی ڈور ہاتھ سے چھوٹی تھی اس لیے
دامن جو بد گمانیوں سے تار تار تھا
کیسی تھی مے جو آنکھ سے تو نے پلائی تھی
میری رگوں میں آج تک اس کا خمار تھا
ٹوٹا کوئی ستارا تھا یا خواب آرزو
طائر قفس میں رات بہت بیقرار تھا
دھندلا دیے تھے جس نے سبھی آئینے یہاں
میرے ہی گھر سے اٹھا وہ گرد و غبار تھا
غزل
دیکھا پلٹ کے جب بھی تو پھیلا غبار تھا
فرح اقبال