EN हिंदी
دیکھا نہیں جاتا ہے مگر دیکھ رہے ہیں | شیح شیری
dekha nahin jata hai magar dekh rahe hain

غزل

دیکھا نہیں جاتا ہے مگر دیکھ رہے ہیں

طالب باغپتی

;

دیکھا نہیں جاتا ہے مگر دیکھ رہے ہیں
ہم ہمت ارباب نظر دیکھ رہے ہیں

ہر شخص سمجھتا ہے ادھر دیکھ رہے ہیں
ہم دیکھ رہے ہیں وہ جدھر دیکھ رہے ہیں

یہ کس نے نظر بھر کے انہیں دیکھ لیا ہے
ہر سمت وہ آشفتہ نظر دیکھ رہے ہیں

دل کھینچ رہا ہے کوئی اے دیدۂ حیراں
کیا دیکھ رہا ہے وہ ادھر دیکھ رہے ہیں

چشمک ہے ستاروں میں ہوا روئے قمر زرد
کیا خواب وہ ہنگام سحر دیکھ رہے ہیں

اللہ رے ساقی تری مدہوش نگاہیں
ہر چیز پہ مستی کا اثر دیکھ رہے ہیں

مارا جسے جی چاہا جسے چاہا جلایا
یہ معجزۂ حسن نظر دیکھ رہے ہیں

طالبؔ وہ اٹھیں پھر غلط انداز نگاہیں
شاید وہ مرا ظرف نظر دیکھ رہے ہیں