دیکھا کچھ آج یوں کسی غفلت شعار نے
میں اپنی عمر رفتہ کو دوڑا پکارنے
ہنگامۂ شباب کی پونچھو نہ سر گذشت
اپنے چمن کو لوٹ لیا خود بہار نے
پیکان تیر زہر میں اتنے بجھے نہ تھے
کچھ اور کر دیا ہے نظر کو خمار نے
تمت بخیر دل کی شکایت کی داستاں
ہونٹوں کو سی دیا نگۂ شرمسار نے
ہمت پڑی نہ شیخ سے کہنے کی محتسب
آئے ہو اک غریب پہ غصہ اتارنے
وہ تو کہو کہ آئی قفس تک بھی بوئے گل
ورنہ بھلا دیا تھا ہمیں تو بہار نے
جو تنگ گل تھے طرۂ دستار بن گئے
جو گل تھے آئے تربت بیکس سنوارنے
آئے ہو کیا تمہیں مجھے آواز دو ذرا
آنکھوں کا نور چھین لیا انتظار نے
آلام روزگار سے ملاؔ کو کیا غرض
اپنا بنا لیا ہے اسے چشم یار نے
غزل
دیکھا کچھ آج یوں کسی غفلت شعار نے
آنند نرائن ملا