دیکھا جو ایک شخص عجب آن بان کا
اک سلسلہ سا رہتا ہے ہر وقت دھیان کا
بے سوچے سمجھے گھر سے جو یوں ہی نکل پڑے
اب ڈھونڈتے ہیں سایہ کسی سائبان کا
کوئی نہیں ہے ایسا کہ اپنا کہیں جسے
کیسا طلسم ٹوٹا ہے اپنے گمان کا
بستی میں ہیں پہ ایسے کہ سب سے جدا ہیں ہم
اچھا تھا خبط ہم کو بھی اونچے مکان کا
موج نفس کے ساتھ رہے رشتۂ امید
دھڑکا سا ورنہ رہتا ہے ہر وقت جان کا
ظالم خدا سے ڈر کہیں بجلی نہ گر پڑے
مشکل بہت ہے گرنا اگر آسمان کا
جس گھر میں ہنستے کھیلتے گزری ہے ایک عمر
رشتہ بھی اب تو یاد نہیں اس مکان کا
ناکامیوں کو ہم نے مقدر بنا لیا
اب ڈر نہیں رہا ہے کسی امتحان کا
نادرؔ وہ کب بلاؤں کو خاطر میں لاتے ہیں
رکھتے ہیں جو بھی حوصلہ اونچی اڑان کا
غزل
دیکھا جو ایک شخص عجب آن بان کا
اطہر نادر