EN हिंदी
دیکھ ماضی کے دریچوں کو کبھی کھولا نہ کر | شیح شیری
dekh mazi ke darichon ko kabhi khola na kar

غزل

دیکھ ماضی کے دریچوں کو کبھی کھولا نہ کر

سلیم فراز

;

دیکھ ماضی کے دریچوں کو کبھی کھولا نہ کر
بھاگتے لمحوں کے پیچھے اس طرح دوڑا نہ کر

اے مرے سورج مرے سائے کے دیرینہ رفیق
راستے میں روشنی بن کر بکھر جایا نہ کر

یہ بھی ممکن ہے ترے دیوار و در تیرے نہ ہوں
گھر کے اندر بیٹھ کر تو اس طرح رویا نہ کر

کہہ لیا کر گاہے گاہے تو کوئی اچھی غزل
محفل شعر و سخن سے خود کو یوں تنہا نہ کر

کہہ رہی ہے مجھ سے میرے گھر کی تاریکی فرازؔ
رات ہو جائے تو گھر سے تو کہیں جایا نہ کر