دیکھ ان آنکھوں سے کیا جل تھل کر رکھا ہے
غم سی آگ کو ہم نے بادل کر رکھا ہے
جس نے راہ کے پیڑوں کی سب شاخیں کاٹیں
سب نے اسی کے سر پر آنچل کر رکھا ہے
کوئی پہاڑ ہے اپنی ذات کے اندر جس نے
خود ہم سے بھی ہم کو اوجھل کر رکھا ہے
پتھر لے کر سارا شہر ہے اس کے پیچھے
اک پاگل نے سب کو پاگل کر رکھا ہے
اس نے خالی دشت بسانے کی کوشش میں
بھرے پرے شہروں کو جنگل کر رکھا ہے
تیری ہستی ایک فرات سہی پر تو نے
میرے تو آنگن کو کربل کر رکھا ہے
تیرے جلال کے منکر تو چند ایک ہیں لیکن
تیرے عذاب نے سب کو بے کل کر رکھا ہے
اب شہزادؔ زمانے سے کیا لینا دینا
ہم نے باب درد مکمل کر رکھا ہے
غزل
دیکھ ان آنکھوں سے کیا جل تھل کر رکھا ہے
شہزاد قمر