دیکھ ہمارے ماتھے پر یہ دشت طلب کی دھول میاں
ہم سے عجب ترا درد کا ناطہ دیکھ ہمیں مت بھول میاں
اہل وفا سے بات نہ کرنا ہوگا ترا اصول میاں
ہم کیوں چھوڑیں ان گلیوں کے پھیروں کا معمول میاں
یوں ہی تو نہیں دشت میں پہنچے یوں ہی تو نہیں جوگ لیا
بستی بستی کانٹے دیکھے جنگل جنگل پھول میاں
یہ تو کہو کبھی عشق کیا ہے جگ میں ہوئے ہو رسوا بھی؟
اس کے سوا ہم کچھ بھی نہ پوچھیں باقی بات فضول میاں
نصب کریں محراب تمنا دیدہ و دل کو فرش کریں
سنتے ہیں وہ کوئے وفا میں آج کریں گے نزول میاں
سن تو لیا کسی نار کی خاطر کاٹا کوہ نکالی نہر
ایک ذرا سے قصے کو اب دیتے کیوں ہو طول میاں
کھیلنے دیں انہیں عشق کی بازی کھلیں گے تو سیکھیں گے
قیسؔ کی یا فرہادؔ کی خاطر کھولیں کیا اسکول میاں
اب تو ہمیں منظور ہے یہ بھی شہر سے نکلیں رسوا ہوں
تجھ کو دیکھا باتیں کر لیں محنت ہوئی وصول میاں
انشاؔ جی کیا عذر ہے تم کو نقد دل و جاں نذر کرو
روپ نگر کے ناکے پر یہ لگتا ہے محصول میاں
غزل
دیکھ ہمارے ماتھے پر یہ دشت طلب کی دھول میاں
ابن انشا