EN हिंदी
دیکھ دریا کو کہ طغیانی میں ہے | شیح شیری
dekh dariya ko ki tughyani mein hai

غزل

دیکھ دریا کو کہ طغیانی میں ہے

شہریار

;

دیکھ دریا کو کہ طغیانی میں ہے
تو بھی میرے ساتھ اب پانی میں ہے

نور یہ اس آخری بوسے کا ہے
چاند سا کیا تیری پیشانی میں ہے

میں بھی جلدی میں ہوں کیسے بات ہو
تو بھی لگتا ہے پریشانی میں ہے

مدعی سورج کا سارا شہر ہے
رات یہ کس کی نگہبانی میں ہے

سارے منظر ایک سے لگنے لگے
کون شامل میری حیرانی میں ہے