دیکھ دریا کو کہ طغیانی میں ہے
تو بھی میرے ساتھ اب پانی میں ہے
نور یہ اس آخری بوسے کا ہے
چاند سا کیا تیری پیشانی میں ہے
میں بھی جلدی میں ہوں کیسے بات ہو
تو بھی لگتا ہے پریشانی میں ہے
مدعی سورج کا سارا شہر ہے
رات یہ کس کی نگہبانی میں ہے
سارے منظر ایک سے لگنے لگے
کون شامل میری حیرانی میں ہے
غزل
دیکھ دریا کو کہ طغیانی میں ہے
شہریار