دیکھ بھال کر سنبھل سنبھل کر آتے ہیں
ہم تک چہرے عمر بدل کر آتے ہیں
جمے ہیں جو چہرے آنکھوں کی کوروں پہ
آؤ ان کو گیت غزل کر آتے ہیں
جب کرنیں پانی پہ دستک دیتی ہیں
لہروں پہ گرداب اچھل کر آتے ہیں
تم جیسے ہم لگنے لگیں گے ٹھہرو تو
ہم بھی اپنا خون بدل کر آتے ہیں
گلشن سے مجھ تک آنے میں ہوا کے ہاتھ
جانے کتنے پھول مسل کر آتے ہیں
فانیؔ جیسے کچھ چہرے بازاروں میں
اپنی انا ہر روز نگل کر آتے ہیں
غزل
دیکھ بھال کر سنبھل سنبھل کر آتے ہیں
فانی جودھپوری