دیکھ اب اپنے ہیولے کو فنا ہوتے ہوئے
تو نے بندوں سے لڑائی کی خدا ہوتے ہوئے
فیصلہ ہونا ہے جو کچھ آج ہونا چاہئے
مدتیں لگ جائیں گی محشر بپا ہوتے ہوئے
سوچتا رہتا ہوں کب بدلے گی گلشن کی ہوا
دیکھتا رہتا ہوں لمحوں کو ہوا ہوتے ہوئے
ہے بلا اب کون سی باقی جو مجھ پر آئے گی
میں کسی سے کیوں ڈروں بے دست و پا ہوتے ہوئے
دیکھتے رہتے ہو سب کچھ بولتے کچھ بھی نہیں
کس قدر بے درد ہو درد آشنا ہوتے ہوئے
زرد چہرہ سرخ آنکھیں کانپتے بے صبر ہونٹ
یہ سبھی کچھ اور دل بے مدعا ہوتے ہوئے
شادماں ہوں اپنی سب مجبوریوں کے باوجود
مطمئن ہوں روح کے اندر خلا ہوتے ہوئے
جن کو تو دھتکارتا ہے وہ بھی تیرے سائے ہیں
تو نے اتنا بھی نہیں سوچا خفا ہوتے ہوئے
آج کی تابندگی سے کل کا اندازہ نہ کر
دیکھ پتوں کو درختوں سے جدا ہوتے ہوئے
منتظر ہوں کون آتا ہے کوئی وحشی کہ چور
سن رہا ہوں پھر سے دروازے کو وا ہوتے ہوئے
غزل
دیکھ اب اپنے ہیولے کو فنا ہوتے ہوئے
شہزاد احمد