دے رہے ہیں جس کو توپوں کی سلامی آدمی
کیا کہوں تم سے کہ ہے کتنا حرامی آدمی
بھیڑ چھٹ جائے گی تب اس کی سمجھ میں آئے گا
ایک اکیلا آدمی ہے اژدہامی آدمی
کیا دکھاتے ہو میاں، پرچہ ہمیں اخبار کا
ہم نے دیکھے ہیں بہت نامی گرامی آدمی
پاؤں میں جوتا نہیں ہے، پیٹ میں روٹی نہیں
لے کے کیا چاٹے گا خالی نیک نامی آدمی
اٹھ کے جا بیٹھا وہی اشرافیہ کی گود میں
ہم غریبوں نے جسے سمجھا عوامی آدمی
قیس صاحب کس لیے بھٹکیں گے نجد شوق میں
مل ہی جائے گا کوئی ہم سا مقامی آدمی
دل کہ ہے شیرازۂ ہستی ہوا کی زد پہ ہے
آدمی، اے آدمی، اے انتظامی آدمی
غزل
دے رہے ہیں جس کو توپوں کی سلامی آدمی
آفتاب حسین