دے محبت تو محبت میں اثر پیدا کر
جو ادھر دل میں ہے یا رب وہ ادھر پیدا کر
دود دل عشق میں اتنا تو اثر پیدا کر
سر کٹے شمع کی مانند تو سر پیدا کر
پھر ہمارا دل گم گشتہ بھی مل جائے گا
پہلے تو اپنا دہن اپنی کمر پیدا کر
کام لینے ہیں محبت میں بہت سے یا رب
اور دل دے ہمیں اک اور جگر پیدا کر
تھم ذرا اے عدم آباد کے جانے والے
رہ کے دنیا میں ابھی زاد سفر پیدا کر
جھوٹ جب بولتے ہیں وہ تو دعا ہوتی ہے
یا الٰہی مری باتوں میں اثر پیدا کر
آئینہ دیکھنا اس حسن پہ آسان نہیں
پیشتر آنکھ مری میری نظر پیدا کر
صبح فرقت تو قیامت کی سحر ہے یا رب
اپنے بندوں کے لیے اور سحر پیدا کر
مجھ کو روتا ہوا دیکھیں تو جھلس جائیں رقیب
آگ پانی میں بھی اے سوز جگر پیدا کر
مٹ کے بھی دوری گلشن نہیں بھاتی یا رب
اپنی قدرت سے مری خاک میں پر پیدا کر
شکوۂ درد جدائی پہ وہ فرماتے ہیں
رنج سہنے کو ہمارا سا جگر پیدا کر
دن نکلنے کو ہے راحت سے گزر جانے دے
روٹھ کر تو نہ قیامت کی سحر پیدا کر
ہم نے دیکھا ہے کہ مل جاتے ہیں لڑنے والے
صلح کی خو بھی تو اے بانئ شر پیدا کر
مجھ سے گھر آنے کے وعدے پر بگڑ کر بولے
کہہ دیا غیر کے دل میں ابھی گھر پیدا کر
مجھ سے کہتی ہے کڑک کر یہ کماں قاتل کی
تیر بن جائے نشانہ وہ جگر پیدا کر
کیا قیامت میں بھی پردہ نہ اٹھے گا رخ سے
اب تو میری شب یلدا کی سحر پیدا کر
دیکھنا کھیل نہیں جلوۂ دیدار ترا
پہلے موسیٰ سا کوئی اہل نظر پیدا کر
دل میں بھی ملتا ہے وہ کعبہ بھی اس کا ہے مقام
راہ نزدیک کی اے عزم سفر پیدا کر
ضعف کا حکم یہ ہے ہونٹ نہ ہلنے پائیں
دل یہ کہتا ہے کہ نالے میں اثر پیدا کر
نالے بیخودؔ کے قیامت ہیں تجھے یاد رہے
ظلم کرنا ہے تو پتھر کا جگر پیدا کر
غزل
دے محبت تو محبت میں اثر پیدا کر
بیخود دہلوی