دے گیا لکھ کر وہ بس اتنا جدا ہوتے ہوئے
ہو گئے بے آسرا ہم آسرا ہوتے ہوئے
کھڑکیاں مت کھول لیکن کوئی روزن وا تو کر
گھٹ نہ جائے میرا دم تازہ ہوا ہوتے ہوئے
وقت نے گردن اٹھانے کی نہ دی مہلت ہمیں
اپنا چہرہ بھول بیٹھے آئینہ ہوتے ہوئے
خود اسی کے عہد میں عزم وفاداری نہ تھا
ورنہ کیوں مجھ سے بدلتا آشنا ہوتے ہوئے
گردش دوراں کا ہم پر بھی اثر ہوتا ضرور
ہم نے دیکھا ہے مگر اس کو خفا ہوتے ہوئے
جانے کس کے سوگ میں یہ شہر ہے ڈوبا ہوا
مے کدے سنسان ہیں کالی گھٹا ہوتے ہوئے
غزل
دے گیا لکھ کر وہ بس اتنا جدا ہوتے ہوئے
فصیح اکمل