دے گیا درد بے طلب کوئی
میرا ہمدرد تھا عجب کوئی
کون نکلا ہے اپنی الجھن سے
اور کو پا سکا ہے کب کوئی
یہ اجالا یہ دن کہاں ہوں میں
مجھ سے کچھ کہہ رہا تھا شب کوئی
اب جو روٹھے تو جاں پہ بنتی ہے
خوش ہوا مجھ سے بے سبب کوئی
میری منزل مجھے نہیں معلوم
صبح کوئی ہے اور شب کوئی
موت اور آرزو کی موت ضیاؔ
ہاں بہت مطمئن ہے اب کوئی
غزل
دے گیا درد بے طلب کوئی
ضیا جالندھری