دیار شوق میں کوسوں کہیں ہوا بھی نہیں
امس ہے ایسا کہ پتہ کوئی ہلا بھی نہیں
خفا نہیں ہے مگر اس ادا کو کیا کہئے
پکارتا ہوں تو وہ مڑ کے دیکھتا بھی نہیں
یہ کس مقام پہ تنہائی سونپتے ہو مجھے
کہ اب تو ترک تمنا کا حوصلہ بھی نہیں
بڑا گلہ ہے دل غم پرست کو تم سے
وہ درد اس کو دیا ہے جو لا دوا بھی نہیں
کہاں تلاش کریں جز ترے سکون نظر
کہ اس جہاں میں کوئی تجھ سا دوسرا بھی نہیں
بسا ہوا ہے مرے دل میں بوئے گل کی طرح
وہ دور دور ہے مجھ سے مگر جدا بھی نہیں
کسے سناؤ گے تم مژدۂ سحر ناصرؔ
وہ رت جگے ہوئے اب کوئی جاگتا بھی نہیں
غزل
دیار شوق میں کوسوں کہیں ہوا بھی نہیں
ناصر زیدی