EN हिंदी
دیار شب کا مقدر ضرور چمکے گا | شیح شیری
dayar-e-shab ka muqaddar zarur chamkega

غزل

دیار شب کا مقدر ضرور چمکے گا

فراغ روہوی

;

دیار شب کا مقدر ضرور چمکے گا
یہیں کہیں سے چراغوں کا نور چمکے گا

کہاں ہوں میں کوئی موسیٰ کہ اک صدا پہ مری
وہ نور پھر سے سر کوہ طور چمکے گا

ترے جمال کا نشہ شراب جیسا ہے
ہماری آنکھوں سے اس کا سرور چمکے گا

بھرم جو پیاس کا رکھے گا آخری دم تک
اسی کے ہاتھ میں جام طہور چمکے گا

یہ کہہ کے دار پہ خود کو چڑھا دیا میں نے
کہ دار پر بھی سر بے قصور چمکے گا

لٹے ہوئے ہیں مگر ہم ابھی نہیں مایوس
ہمارے تاج میں پھر کوہ نور چمکے گا

تلاش کرتا ہے مجھ مشت خاک میں تو عبث
غرور ہوگا جبھی تو غرور چمکے گا

متاع فن سے نوازا گیا ہے تجھ کو فراغؔ
اسی سے نام ترا دور دور چمکے گا